نظم ۔۔۔ زعیم رشید

یہ چادر کیوں نہیں ہٹتی
نہ جانے کیوں بڑی ماں کو جنوں تھا حکمرانی کا
مِرے گھر کے سبھی کردار کہتے تھے
انھی کی حکمرانی ہے
انھی کی راجدھانی ہے
انھی کا یہ وتیرہ ہے
حویلی بھر کی جتنی چابیاں تھیں
اُن کے پلو سے بندھی رہتی تھیں
اور کس میں یہ جرأت تھی کہ اُن کو چھو بھی سکتا ہو
یہ خوش بختی مقدر تھی تو میرا تھی
کہ وہ صندوق جب کھولیں تو کمرے میں
فقط مجھ کو بلاتی تھیں
تو میں یوں بے نیازی میں کچھ ایسے
چل کے جاتا تھا
کہ جیسے کوئی شہزادہ
یہ سچ تھا ۔۔۔ سچ
کہ ابا جب کبھی نا راض ہوتے تھے
توکہتے تھے
کہ ’’امّاں دیکھ تیرے پیار نے اس کو بگاڑا ہے
یہ نالائق۔۔۔ !
جسے کہتی ہو شہزادہ
شرارت کی پٹاری ہے
تو ایسے میں بڑی ماں ہنس کے کہتی تھیں
اَرے جانے دے‘ بچہ ہے
یہی تو عمرہوتی ہے شرارت کی
کہ جب بھی پیسے گننے ہو ں
تو وہ مجھ کو بلاتی تھیں
تو میں چپکے سے کچھ پیسے اُڑا لیتا
میں جب بھی پکڑا جاتا تھا
تو وہ ناراض ہو کر منہ کو چادر میںچھپا لیتیں
میں جب بھی توبہ کرتا تھا
مِرامنہ چوم لیتی تھیں
مگر اب کے
تو کوئی بھی خطا مجھ سے نہیں سر زد ہو ئی
پھر بھی
سمجھ میں کچھ نہیں آتا
وہ کیوں ناراض ہیں مجھ سے !
انھوں نے کیوں چھپارکھا ہے
منہ مٹی کی چادر سے
یہ چادر کیوں نہیں ہٹتی!

Related posts

Leave a Comment